Monday 2 September 2013

معذوری کی شرح میں اضافہ (جسمانی نہیں اخلاقی)

السلام و علیکم 

کافی دن تک مصروف رہا کچھ نجی نوعیت کے کاموں میں تو اس دوران کچھ ایسا دیکھنے یا سننے کو نہیں ملا جو یہاں لکھا جاسکے کیونکہ جو دیکھا اور سنا وہ بلاگز پر کئی بار لکھا جا چکا ہوگا ۔ کل ایک جگہ لاہور کے چند بلاگرز کی گیٹ ٹو گیدر تھی تو وہاں سے واپس آتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک پیروں سے معذور لڑکا تین پہیوں والی موٹر سائیکل پر جا رہا تھا میں نے اس کے پاس گزرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا تو دنگ رہ گیا اور مجھے لگا کہ میں معذور ہوں اور یہ تین پہیوں کی موٹرسائیکل پر جاتا ہوا لڑکا بالکل ٹھیک اور کسی بھی قسم کی معذوری کا شکار نہیں ہے ۔ اتنی طمانیت، اتنی خوشی اور سکون تھا اس کے چہرے پر کہ دیکھو میں بھی اپنی تین پہیوں والی موٹر سائیکل پر جسے تم معذوروں کی موٹر سائیکل کہتے ہو تمہارے ساتھ ایک ہی سڑک پر رواں دواں ہوں ۔ اور میں سڑک کی سائیڈ پر رُک گیا، ہاتھ پاؤں بے جان ہوگئے، ٹھنڈے پسینے آنے لگے، میں نے کانپتے ہاتھوں جیب مین ہاتھ ڈال کر سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور لرزتے ہوئی انگلیوں سے ایک سگریٹ پکڑی اسے سلگا کر وہیں بیٹھ گیا ۔ اور سوچنے لگا کہ معاشرے میں میرے جیسے معذوروں کی تعداد پڑھتی جارہی ہے ۔ یہ جسمانی نہیں اخلاقی اور عملی معذوری ہے ۔ ہماری زبان، دماغ، آنکھیں، کان ہماری مدد کرتے ہیں سیکھنے میں لیکن اخلاقی معذوری ہمیں ہاتھ پاؤں نہیں ہلانے دیتی یہاں تک کہ بطور نام کے مسلمان ہونے کا بھی ثبوت نہیں دے پاتے۔ آفس جاتے ہوئے اکثر میرا دل چاہتا ہے کہ کسی غریب کو 10 روپے ہی دیدوں ۔۔ لیکن دل میں فوراً خیال آتا کہ تجھے آفس سے دیر ہوجائے گی تیری کچھ دینے کی نیت تو تھی نہ ، کسی کو لفٹ دینے کا ارادہ ہو تو خیال آتا ہے کہ موٹر سائیکل کی حالت ٹھیک نہیں ہے لیکن نیت تو تھی نہ ۔ کسی اشارے پر کسی جوان آدمی یا عورت کو دیکھتے ہیں تو جوان کو گھوری ڈال کر جھڑک دیتے ہیں اور عورت کو ہوسناک نظروں سے تولتے ہوئے منہ پر کمینی سی ہمدردی بھری مسکراہٹ سجا کر اسے دس روپے دے دیتے ہیں اگرساتھ میں گھر والے ہوں تو افساوس کا اطہار کرتے ہیں اور اگر دوست ہوں اس کی تعریف کی جاتی ہے اور اگر اکیلے ہوں تو پھر جو چاہے سوچتے ہیں ۔ اخلاقی معذوری کے خلاف ہم کسی ڈاکٹر یا حکیم کے پاس نہیں جاتے اسے اپنے اوپر حاوی ہونے دیتے ہیں۔ آجکل سوشل میڈیا کا دور ہے تو اور آسانی ہوگئی اپنی بے عمل نیکی کی پروموشن کی ۔ جو چاہے کرتے ہوں فوراً اپنے موبائل کے ذریعے فیس بک یا ٹوئٹر پر اسٹیٹس اپ لوڈ کردیا جاتا ہے اور یوں ذمہ داری سے بری ہوجاتے ہیں ۔ اور اخلاقی معذوری تو اتنی خطرناک ہے کہ ہمارے عمل بھی ضائع ہی جاتے ہیں۔ جیسے کہ میں اگر کبھی اپنی سستی اور شیطانیت کے گھیرے سے نکل کر جمعہ کی نماز پڑھ آؤں تو کافی دیر تک اکڑ ہی نہیں جاتی کہ اوئے مجھے کچھ نہ کہنا میں ابھی با جماعت نماز پڑھ کہ آیا ہوں ۔ اور ایسا تو ہمیشہ ہی ہوتا ہے کہ کوئی اچھا کام سرزد ہوجائے تو فوراً کوئی فون کال آجاتی ہے اور میں چھوٹ بول کر پھر اپنی بدی کا پلڑا بھاری کرلیتا ہوں ۔ اکثر میلاد کی محفلوں میں جو خواتین گھروں میں منعقد کرواتی ہیں اس میں اخلاقی معذوری کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہےکہ فلاں عورت کیسے کپرے پہن کر آئی تھی فلاں نے تو کچھ پڑھا ہی نہیں ایویں ای منہ چلاتی رہی ادھر ادھر تاک جھانک کرتی رہی اور کھانا تو ایسے کھایا کہ جیسے مہینوں کی بھوکی ہے وغیرہ وغیرہ وہیں دعا میں ان کا انہماک دیکھنے والا ہوتا ہے کہ جیسے ابھی پھوٹ پھوٹ روئیں گی ۔ میں اپنے دفتر میں خود اٹھ کر کچن مین جاکر اپنے لیئے چائے بناتاہوں یہ دکھانے کے لئے کہ میں اپنے کام خود کرتا ہوں لیکن گھر میں معذوری طاری ہوجاتی ہے کہ میں تو گھر کا واحد کمانے والا ہوں تو یہ گھر والوں کی زمہ داری ہے کہ میری خدمت کریں ۔ میں اپنی ماں کو کہتا ہوں آپ وقت پر کھانا نہیں بناتی ، چھوٹے بھائی کو چائے نہ بنانے پر ڈانٹتا ہوں۔ وہیں کسی محفل میں جانا پو تو وہاں کوشش ہوتی ہے کہ خاص لگوں خاص نظر آؤں اپنے انٹرنیٹ نام "باباجی" کی عملی تفسیر نظر آن کی کوشش کرتا ہوں وہیں اکیلے میں اخلاقیات سے عاری سوچیں مجھے گھیرے رہتی ہیں ۔ اور کل اس لڑکے بظاہر معزور نظر آنے والے جوان کی طمانیت نے مجھے دہلا ڈالا کہ اے بندے تو کس قدر معذور ہے کہ اخلاقی قحط نے تجھے گھیرا ہوا ہے بہت کچھ سکنے کے باوجود تو کچھ نہیں کرتا اور اپنے آس پاس نگاہ ڈالی تو اندازہ ہوا کہ ایسے معذوروں کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے اور ہم خود ایسی معزوری کو بڑھانے کی وجہ بن رہے ہیں ۔ 
علاج یہ سمجھ آیا کہ ہمیں اپنی اس معذوری سے لڑنا ہوگا عمل کی طرف زیادہ اور بھرپور توجہ دینی ہوگی تب کہیں جاکر ہم اخلاقی معذوری کے خاتمے کی شروعات کرسکیں 
اللہ مجھے اور آپ سب کو اپنی اس معذوری سے نجات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے 
ایک دوسرے کو دعاؤں میں یاد رکھا کیجیئے 
آمین 

Tuesday 30 July 2013

زندہ ملک ، مردہ قوم

السلام و علیکم 

آج کی اس پوسٹ میں کچھ ایسا لکھنے جا رہا ہوں جو مجھے بہھت شدت سے محسوس ہوتا ہے اور اس میں سب سے بڑا گنہگار اور بزدل پہلے تو میں خود کو کہوں گا۔ اسلیئے میں تمام احباب سے جو یہ بلاگ پڑھیں گے ان سے ایڈوانس معذرت کرتا ہوں۔ 

بیسویں صدی کے اوائل میں ایک مرد حق نے مسلمانوں کےلیئے ایک الگ مملکت بنانے کا خواب دیکھا اور جدوجہد شروع ہوئی ، پوتے ہوتے آخر کار 14 اگست ماہ رمضان کا 27واں روزہ 1947 ایک مملکت خداداد وجود میں آئی۔ اور ہندوستان میں رہنے والے مسلمان آزاد ملک کی طرف ہجرت کرگئے۔ کئی اپنا پورا خاندان مرواکر جائیداد لٹواکر یہاں پہنچے۔( ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے، کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے)۔ پھر یہاں کئی طرح کی حکومتیں بنیں جن میں فوجی و جمہوری حکومتیں دونوں شامل تھیں۔ اب غیر مسلم کیسے برداشت کرتے اس نوزائیدہ ملک کو لہٰذا انہوں اپنے مذموم مقاصد بنانے شروع کیئے جن کے تحت شروعات ہی ایسی ہوئی کہ آج تک اس ملک میں کبھی امن نہ ہوسکا ۔ اپنے ہی دشمن تھے اس ملک کے اور آج بھی اپنے ہی دشمن ہیں اس ملک کے۔ کس کس طرح نقصان نہیں پہنچایا گیا اس ملک کو 1971 میں تو دو لخت ہوگیا ،لیکن ٹھیک ہوا کہ جو ملک آج بنگال کہلاتا ہے وہ تھے ہی اسی قابل کے انہیں ناسوروں کی طرح الگ کردیا جائے۔ پھر غیرملکی قوتوں نے جمہوریت کا نعرہ لگایا کہ جو سراسر زہر ہلاہل ثابت ہوا، صورتحال آپ کے سامنے ہے کہ جن اسلامی ممالک میں جمہوریت نافذ کرنے بات ہوتی ہے وہاں کیا حال ہوتا ہے ۔ حالیہ دنوں میں شام اور مصر میں کیا صورتحال ہے آپ کے سامنے ہے۔ لیکن وہاں کی عوام زندہ ہے اپنے حق کے لیئے سڑکوں پر ہے چاہے جمہوریت ہو یا آمریت وہ نکلتے تو ہیں۔ اب بات آتی ہے مملکت خداداد کی قوم کی ۔ سبحان اللہ کیا قوم ہے صدقے جاؤں میں اپنی قوم کے اس قدر مردہ دل قوم کے اس کی ماؤں بیٹیوں کو کوئی بھی لے جائے، اپنے مذموم مقاصد کے لیئے استعمال کرے یہ دیکھتی ہے لیکن ہوئی رہتی ہے۔ حق خود ارادیت پر ڈاکہ ڈال دیا جائے یہ دیکھتی پر سوئی رہتی ہے، کوئی غیر ملکی اپنی گاڑی کے نیچے بندے دیدے، پھر گولیاں مارے وہ پھر بھی آرام سے اپنے ملک چلا جاتا ہے یہ قوم دیکھتی ہے پر سوئی رہتی ہےکہ ان کے وارثان اپنے بچوں کی لاشوں کا سودا امریکی ویزہ اور پیسوں کی عوض کرلیتے ہیں یہ قوم دیکھتی ہے پر سوئی رہتی ہے . اخلاق باختہ چینلز ہمارے ہاں کیبل پر دکھائے جا رہے ہیں عوام دیکھتی رہتی اور سوتی نہیں، مائیں اپنے بچوں سے جان چھڑانے کے لیئے انہیں ہندؤں کے بنائے ہوئے کارٹونز چینلز کے سامنے بٹھا دیتی ہیں اور وہ ہندؤں کی کہانیاں دیکھتے اور رٹتے ہیں پھر ایک دوسرے کو ان ناموں سے پکارتے ہیں خود میرے ماموں کی بیٹی نے اپنا نام کسی ہندو کارٹون کردار کے نام پر رکھا ہوا ہے ۔ پہلے تو انڈین ڈرامے شروع ہوئے پھر پاکستانی ڈراموں میں کھلا پن آنے پھر ایک مسلم ملک ترکی کے درامے دکھائے جانے لگے کہ وہ تو مسلم ملک ہے وہاں کی کھلی ڈلی سیکیولر تہذیب یہاں چل سکتی ہے، عوام جاگتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں سوتے ہوئے بھی یہی دیکھتے ہوئے سوتے ہیں۔ بھائی چارے کو سمجھتے ہیں کہ بھائی کو چارہ نہیں ڈالنا لیکن کتا لاکھوں روپے میں خریدلیتے ہیں پھر اس لاکھوں روپے کے کتے کی خدمت کے لیئے چند ہزار پر ایک ملازم رکھتے ہیں اور پھر کتے کو وقت پر کھانا نہ ڈالنے پر تشدد کرکے مار دیتے ہیں کچھ دن نام نہاد پاکستانی میڈیا کوریج دیتا ہے پھر پتا نہیں کیا ہوا، اعلٰی عدلیہ میں کچھ انتہائی ایماندار لوگ آ بیٹھتے ہیں جو انتہائی غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف ایک ہی سیاہ سی پارٹی کے خلاف فیصلہ اور دوسری کو سٹے آرڈر دیدیتے ہیں، پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری تو رکوادیتے ہیں لیکن آجکل جو ہزاروں مالزمین اسٹیل ملز کے بھوکے مر رہے ہیں وہ نظر نہیں آتے کیونکہ انہین پتا ہے قوم دیکھ رہی ہے لیکن سو رہی ہے، از خود نوٹس لے کر خبروں کی زینت بنتے ہیں لیکن فیصلہ کیا ہوا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ عوام دیکھتی ہے لیکن سو رہی ہے، ایک سب سے بڑے جج کا بیٹا ملزم ہے لیکن الزام ثابت ہونے کے باوجود کچھ نہیں ہوا کہ عوام سو رہی ہے، محسن کش عوام جو اپنے سب سے بڑے جمہوری لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی موت کو بھول جاتی ہے جو بیچارہ کہتا تھا کہ میرے مرنے پر ہمالیہ روئے گا آج عوام کو شاید ہی یاد ہو، کچھ لوہار ایک جنرل کی گاڑی کے پیچھے بھاگتے ہیں پھر دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے تیسرے امیر ترین بن جاتے ہیں ، کیسے ؟؟؟؟ عوام دیکھتی ہے پر سو رہی ہے۔ ایک بندہ 8 سال جیل میں رہ کر اور اپنی بیوی کو مرواکر اس ملک کا صدر بن جاتا ہے اور اپنی بیوی کے قتل کا کیس ہی نہیں چلاتا کیوں ؟؟؟؟؟؟ کہ عوام سو رہی ہے، 1997 میں حکومتی جماعت ایک اسکیم نکالتی ہے ملک کو ترقی دینے کے لیئے قرض اتارو ملک سنوارو جس میں کم سے کم 40،000 روپے پاکستانی یا 1 ہزار ان کے غیر ملکی آقاؤں کی کرنسی یعنی ڈالر مانگا جاتا ہے ، اربوں روپے آتے ہیں لیکن نہ تو ملک سنورتا ہے نہ قرض اترتا ہے ، کیوں ؟؟؟؟؟؟؟ کہ عوام سورہی ہے۔ شریعہ بل لانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے تحت یہاں بادشاہی نظام نافذ ہوتا اور ایک مخصوص خاندان یہاں حکومت کرتا ، کیوں ؟؟؟؟؟؟؟ کہ عوام سو رہی ہے پھر یہاں فوجی حکومت آتی ہے اور حکومتی جماعت کے لیڈر گرفتار ہوجاتے ہیں پھر وہ معاہدہ کر کے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور سر پر نئے بال لگولیتے ہیں انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ عوام سو رہی ہے ۔۔ ملک میں ایک جنرل حکومت کرتا ہے ملک ترقی کرتا ہے معاشی ، اقتصادی اور تکنیکی لوگ سائیکل سے موٹر سائیکل، موٹر سائیکل سے گاڑی، گاڑی سے بڑی گاڑی لے لیتے ہیں ، غریب ترین بندہ بھی موبائل فون رکھتا ہے، انٹرنیٹ گھر گھر میں ہے پھر وہ انتخابات یعنی الیکشن کرواتا ہے خود صدر منتخب ہوتا ہے اس کے دور میں ترقی کی رفتار تیز ہے کئی لوگ لکھ پتی سے کروڑ پتی ہو جاتے ہیں خوشحالی آرہی ہے غیر ملکی کشکول ٹوٹ رہے ہیں ۔ پھر ایک دینی مدرسے کے لوگ اٹھتے ہیں معصوم بچیاں مرقعے میں ملبوس ہیں ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے پکڑادیئے جاتے ہیں کہ شریعت ڈنڈے کے زور پر نافذ کی جائے (شریعت نہ ہوئی مذاق ہو گیا علما کے لیئے ) پھر حکومتی آپریشن ہوتا ہے ۔ یاد رہے اس زمانے میں امام کعبہ شیخ عبدالرحمن السدیس آ ئے ہوئے تھے انہوں نے کچھ نہیں کہا لیکن یہاں اب تک شور ہے کہ بہت سے بے گناہ مارے گئے ، ظاہر ہے بھائی مذہبکے ٹھیکیدار چاہیں تو مدارس میں انٹی ایئر کرافٹ گن بھی لگالیں تو جائز ہے ۔ بہرحال وہ جنرل مدت پوری ہونے پر اپنی وردی بھی اتار دیتا ہے اور صدارت چھوڑ دیتا ہے اور ملک سے باہر چلا جاتا ہے ۔ پھر بھٹو کی بیٹی آتی ہے اس پر پہلا حملہ ہوتا ہے وہ بچ جاتی ہے پھر کچھ عصہ بعد اس پر دوسرا حملہ ہوتا ہے اس کی اپنی ذاتی سیکیورتی بھی اس کو نہیں بچا سکی اور وہ جاں بحق ہوجاتی ہے اور اس کے بعد ملک میں جو لوٹ مار اور تشدد کا بازار گرم ہوتا ہے قتل و غارت گری تین دن تک جاری رہتی ہے کئی بیٹے مارے جاتے ہیں کئی بیٹیاں جو نوکری کرتی تھیں گھروں کو نہ پہنچ سکیں اس پارٹی کے کارکنان اور لیڈران کے گھروں میں ان کے بستروں میں پہنچادی گئیں اس بی بی کے مرنے کی وجہ سے (راقم بہت سے واقعات کا عینی گواہ ہے اور اپنی مدہ دلی اور بزدلی پر تا عمر شرمندہ رہے گا) پھر ہماری سوتی ہوئی عوام مری ہوئی لیڈر کو ووٹ دیتی ہے اور اس کے بعد پانچ سال وہ پارٹی ملک کو لوٹ کر کھاتی ہے اور دوسری پارٹی اپنی باری کے انتظار میں فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرتی ہے کیونکہ عوام سو رہی ہے عدلیہ گونگلوؤں پر مٹی چھاڑتے ہوئے کچھ فیصلے کرتی ہے لیکن ادارے وہ فیصلے ہی جھاڑدیتے ہیں کہ انہیں کسی نے کیا کہنا ہے کیونکہ عوام تو سو رہی ہے ملک بجائے ترقی کرنے کے بدحالی کی طرف رواں ہوجاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ پچھلی حکومت نے کام خراب کیا اور یہ بہانہ بناکر نئی حکومت اور کام خراب کردیتی ہے کہ عوام تو سو رہی ہے اور پھر دوسری پارٹی اپنا ٹرن نزدیک آنے پر حرکت میں آتی ہے صرف ایک ہی شہر میں ترقیاتی کام حیرت انگیز رفتار سے ہوتے ہیں انڈر پاس بنتے ہیں پل بنتے ہیں ، سڑکیں بنتی ہیں اور یوں عوام تھوڑی سی آنکھیں کھول کر دیکھتی ہے ۔ ایک کپتان آتا ہے نئی سوچ کے ساتھ اور اس عوام کو باہر لاتا گھروں سے جو میری طرح کبھی ووٹ نہیں ڈالتی ، پھر انتخابات ہوتے ہیں ، دھاندلی اپنی تاریخ کی انتہا پر ہوتی ہے اور ہمارے نام نہاد الیکشن کمیشن کے قریب المرگ بابے کہتے ہیں کہ انتخابات صاف و شفاف تھے کیوں کہ عوام سو رہی ہے ۔ پھر ایک پارٹی سادی اکثریت لے کر کامیاب ہوجاتی ہے وہی پارٹی جو 1997 میں منتخب ہوئی تھی اور پھر فوجی سے معاہدہ کرکے دلیری سے بھاگ گئی تھی باہر کے ملک اور بہت ترقی کی وہاں ، بہرحال یہ پارٹی اپنی انتخابی مہم میں بہت سے وعدے کرتی ہے کشکول توڑدیں گے، لوڈ شیڈنگ کم یا ختم ہوجائے گی وغیرہ وغیرہ لیکن اقتدار میں اتے ہی وہ دھجیان اڑاتے ہیں کہ سبحان اللہ ایک نیا کشکول بنتا ہے اس میں اربوں ڈالر کا قرضہ پھینکا جاتا ہے اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں آسمان پر چلی جاتی ہیں، پٹرول کی قیمت تو لازمی بڑھتی ہے ڈالر کی قیمت 3 روپے بڑھ جاتی ہے ۔۔۔ بجٹ میں امیروں کو ریلیف ملتا ہے اور غریبوں کو صرف امید کیونکہ اب عوام مر چکی ہے اس میں زندگی یا ضمیر نام کی کوئی سے نہیں باقی ۔۔۔ یہ صرف خود کھانے کے لیئے دوسرے کو بھوکا مرنے دیتے ہیں کہ عوام مر چکی ہے ۔۔ حکومت میں وہ لوگ شامل ہیں جن کا اپنے علاقے میں نام خوف و دہشت کی علامت ہے کہ عوام مر چکی ہے شلوار قمیض کے نیچے سروس کے جوگرز پہننے والے لوگ اسمبلی میں بیٹھے ہیں کہ ملک کی ترقی کے لیئے کچھ کر سکیں کیونکہ انہیں پتا عوام مر چکی ہے ۔ 
اور مردہ عوام کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا ، یہ مردہ بچے پیدا کرتی ہے 
کوئی بھی آکر انہیں بھنبھوڑ سکتا ہے کہ مردے کچھ نہیں کہتے 
جو زندہ ہیں وہ دوسری زندہ قوم کے پاس جا رہے ہیں 
کیونکہ عوام مرچکی ہے  
اورمری ہوئی عوام کے حق کے لیئے کون اٹھے گا 
اگر کوئی اٹھے گا تو اسےبھی مار دیا جائے گا 
کہ عوام کو تنگ نہ کرو یہ مر چکی ہے، اور مرا ہوا بے حس ہوتا، اس میں نہ غیرت ہوتی ہے اور عزت نفس ہوتی ہے 
اس کا دین و ایمان صرف پیسا ہوتا ہے ۔ 
جس کے لیئے یہ ایک دوسرے کا گوشت کھاتے ہیں انہیں کوئی نہییں روکتا کہ عوام مر چکی ہے 
لیکن یہ ملک زندہ ہے اور زندہ رہے گا 
کہ یہ مملکت خداداد ہے اس کا مالک خدا ہے

( یہ سب راقم کی ذاتی سوچ ہے اس سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )

Saturday 20 July 2013

جاری المیہ،حیرانی اور پریشانی

السلام و علیکم 

آج ایک ایسی تحریر  لے کر پیش ہوا ہوں جس میں آپ کو بے ربطی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس کے لیئے معذرت خواہ ہوں اور یہ ایک سچائی ہے جو کہ کسی کے ساتھ پیش آرہی ہے میں اس کا نام تو نہیں بتاؤں گا لیکن حالات جیسے تھے اور ہیں ویسے ہی پیش کروں گا کہ میری اس سے اکثر بات ہوتی ہے۔

یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی جو تناؤ بھرے گھریلو ماحول میں پرورش پاتی ہے۔ 4 بہن بھائیوں کے بعد اس کی ماں پیسے اور ملک سے باہر جانے کی خاطر اس کے باپ سے طلاق لے کر اپنی عمر سے چھوٹے اور امریکن نیشنل آدمی سے شادی کرلیتی ہے اور اپنے 4 بچوں کو ان کی نانی کے پاس چھوڑ کر اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ امریکہ سدھار جاتی ہے۔ بچے 8 سال اپنی ماں سے دور اپنی بوڑھی نانی کے پاس پلتے ہیں۔ ماں وہاں دوسرے شوہر سے ایک اور بیٹی کو جنم دیتی ہے اور نوکری کرکے خوب پیسا جمع کرکے لاہور کے ایک پوش علاقے میں ایک کنال کی کوٹھی بنالیتی ہے۔ نانی کے پاس موجود بچوں میں 3 لڑکیاں اور ایک لڑکا ہے۔ جن میں سے ایک لڑکی کی شادی 16 سال کی عمر میں کردی جاتی ہے۔ بھائی بری صحبت میں پڑ کر اپنی تعلیم مکمل نہیں کرپاتا۔ اور ان میں ایک لڑکی کی انٹرنیٹ پر مجھ سے بات ہوتی ہے اور کچھ عرصے میں بہت اچھی دوستی ہوجاتی ہے جو 12 سال  سے قائم ہے۔ اس کی زبانی مجھے حالات کا پتا چلتا رہتا ہے۔ 
پھر ایک دن پتا چلتا ہے کہ ان کی ماں امریکہ سے واپس آگئی ہے ہمیشہ کے لیئے اور اپنے تمام بچوں کو لے کر اپنے بڑے سے گھر میں شفٹ ہوجاتی ہے اور سوتیلا باپ بھی ان کے ساتھ ہی رہتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی ماں بوڑھی ہورہی ہے اور سوتیلے باپ کی جوانی ابھی قائم ہے اس بات کو لے کر ان کے گھر میں جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں۔ باپ اپنی جوان سوتیلی لڑکیوں پر بری نظر رکھتا ہے لیکن ان کی ماں کی وجہ سے ڈرتا بھی ہے۔ ایک دن وہ اپنی ایک سوتیلی بیٹی کے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کوش کرتا ہے تو وہ لڑکی اپنے باپ کو بے نقط سنا دیتی ہے اور اپنی ماں کو بلا لیتی ہے جس کی وجہ سے سوتیلا باپ اس کا شدید دشمن ہوجاتا ہے۔ اور اس کی ماں کے مل کر چھوٹ سچ کہہ کر اپنی بیٹی کو گھر سے نکال دیتا ہے۔ اور وہ جوان لڑکی گھر سے اسطرح نکالے جانے پر پہلے تو حیران ہوتی ہے پھر پریشان ہوتی ہے کہ یہ کیا ہوا اور کیوں ہوا۔ عزت بچانے کی کوشش میں چھت چھن گئی۔ پھر وہ اپنی ایک گہری سہیلی کے گھر چلی جاتی ہے جو کہ اس وقت شدید دباؤ میں زندگی گزار رہی ہوتی ہے کہ اس کے گھر میں پردے کی پابندی ہے لیکن وہ آزاد ہونا اور رہنا چاہتی ہے ۔ اور اپنی سہیلی کے آنے کے بعد جسے گھر سے نکال دیا گیا ہے اس کے آزادی قریب نظر آنے لگتی ہے ۔ اتنے میں اس کا باپ فوت ہوجاتا ہے اور اپنے باپ کے چالیسویں کے بعد وہ اپنا نقاب اتار بھینکتی ہے یہ بہانہ کرکے کہ میں اس گھر کی بڑی لڑکی ہوں مجھے حالات سے لڑنا ہے اپنا اور گھر والوں کا خیال کرنا ہے۔ یہاں وہ ذہنی اور ظاہری تبدیلی کے ساتھ اخلاقی پستی کی طرف سفر شروع کرتی ہے ساتھ میں اس لڑکی کے کندھے کو بندوق رکھنے کے لیئے استعمال کرتی ہے ۔ اس کو پستی کی طرف دھکیلنے میں مرد حضرات اپنا کردار پوری ایمانداری سے ادا کرتے ہیں ۔ ایک دن مجھے اس لڑکی کا فون آتا ہے جسے گھر سے نکال دیا گیا ہے کہ میں اور میری سہیلی کراچی آنا چاہتے ہیں پاسپورٹ بنوانے کے لیئے اور کراچی میں ہمارا کوئی جاننے والا نہیں ہے تو کیا ہم تمہارے گھر آ سکتی ہیں اور تم ہماری مدد کرسکتے ہو پاسپورٹ بنوانے میں تو میں اپنی ماں سے بات کرکے انہیں گرین سگنل دیدیا۔ وہ دونوں صبح کی فلائیٹ سے آتی ہیں میں انہیں ہوائی اڈے سے ریسیو کرکے اپنے دوست کی کار میں اپنے گھر لاتا ہوں اور تھوڑی دیر سستانے کے بعد انہیں لے کر عوامی مرکز لے جاتا ہوں (اس وقت پاسپورٹ آفس عوامی مرکز میں تھا 2004 میں ) وہاں جاکر پتا چلتا ہے کہ اس کی سہیلی نے کسی لڑکے سے بات کی ہوتی ہے پاسپورٹ بنوانے کے لیئے اور وہ لڑکا اسے برطانیہ بھجوانے کا وعدہ کرتا ہے اس شرط پر کہ اس کی سہیلی کی چھوٹی بہن کی شادی اس سے کروائی جائے ۔ مجھے جب یہ سب پتا چلا تو بہت عجیب محسوس ہوا اور کچھ دلچسپ بھی کہ زندگی کا ایک اور تلخ، خود غرضی سے بھرا اور گناہوں کی دلدل کی طرف کشاں کشاں لے جانے والا رخ دیکھنے کو ملے گا ۔ میں اس لڑکی سے جسے گھر سے نکال دیا گیا تھا کہا کہ تم انجانے میں تباہی کی طرف جا رہی ہو اپنی آنکھیں کھولو اور ذرا اپنی اور گھر والوں کی عزت کا خیال کرو جس پر وہ کہتی ہے میں تو غائب دماغی کی سی حالت میں ہوں جس پر میں اپنی امی سے بات کرتا ہوں ۔ پہلے تو امی مجھ پر کافی غصہ کرتی ہیں لیکن پھر مان جاتی ہیں اور اس لڑکی کی ماں سے بات کرتی ہیں۔ اس کی ماں اپنی بیٹی سے دوری پر کافی پریشان اور اسے گھر سے نکالے جانے پر پشیمانی کا اظہار کرتی ہے۔ دوسرے دن وہ دونوں سہیلیاں واپس لاہور روانہ ہوجاتی ہیں اور وہ لڑکی سیدھی اپنی ماں کے پاس چلی جاتی ہے۔جب کہ جو لڑکی اپنا پاسپورٹ بنوانے آتی ہے بعد میں پتا چلتا ہے کہ وہ اخلاقی حدود کو پار کرتے ہوئے کچھ غیر اخلاقی کاموں کے سلسلے میں ملک سے باہر چلی جاتی ہے۔ 
یہاں سے شروع ہوتی ہے گھر نکالی جانے والی لڑکی اب تک کی زندگی کی کہانی جو کہ جاری ہے۔ 
وہ اپنی ماں کے گھر جاکر ایک بار پھر پاہر کے درندوں سے محفوظ ہوجاتی ہے لیکن اسے یہ نہیں پتاہوتا کہ اس کا پاب اب بھی اس کا دشمن ہے۔ وہ اس کی ماں سے کہتا ہے کہ اب اس کی شادی کروادی جائے میرے کچھ جاننے والے ہیں امریکہ میں جنہیں اپنے امریکہ میں پیدا ہوئے پلے بڑھے چھوٹے بیٹے کے لیئے رشتہ چاہیئے ۔ الغرض یہ رشتہ ہوجاتا ہے لڑکی مجھے فون پر بتاتی ہے کہ اس کی شادی ہورہی ہے اور وہ امریکہ جا رہی ہے ۔ اس کا اور رابطہ ختم ہوجاتا ہے کہ وہ امریکہ چلی جاتی ہے اور میں بھی روزی روٹی کمانے میںلگ جاتا ہوں۔ ایک سال بعد مجھے ایک ای میل موصول ہوتی ہے اس لڑکی کی جس میں مسائل ہی مسائل بیان کیئے ہوتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا کسی کی زندگی میں صرف مسائل ہی ہیں ؟؟ ان کا حل نہیں ہے ؟؟ اور ایک لڑکی کے ساتھ ہی کیوں؟؟؟؟ بہرحال اس سے بات ہوتی ہے تو وہ بتاتی ہے کہ جس لڑکے سے اس کی شادی ہوئی ہے وہ بہت سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہے بلکہ وہ پورا خاندان ہی نفسیاتی مسائل کا شکار ہے . اس لڑکے سے اس کی ایک بیٹی تھی ۔ جس کی بابت اس نے بتایا کہ وہ لڑکا ازدواجی تعلقات کے سلسلے میں چند ہی مرتبہ اس کے پاس آیا پھر ایک دم الگ ہوگیا اور پھر کبھی قریب نہیں آیا ۔ اس کی ماں انتہائی ضعیف العقیدہ عورت ہے اور اس کے 2 جیٹھ منشیات کے سلسلے میں جیل میں بند ہیں۔ سسر بھی کچھ نہیں کرتا اور گورنمنٹ کی امداد پر گزارا ہوتا ہے۔ اس دوران پھر کچھ عرصے کے لیئے اس سے رابطہ ختم ہوگیا کہ میں ملک سے باہر چلا گیا تھا نوکری کے سلسلے میں۔ پھر کچھ عرصے بعد میں واپس آگیا۔ ایک دن ایک نئے نمبر سے میرے موبائل ہر کال آئی ، میں ریسیو کی تو پتا چلا وہی لڑکی ہے فون اور آجکل پاکستان میں ہے۔ کچھ دن بعد میرا اس کے گھر جانا ہوا تو اس نے بتایا کہ اس کے باپ نے یہ سب جاننے کے باوجود اس کی شادی اس لڑکے سے کروائی ۔ لڑکے نے اسے طلاق دیدی اور لڑکے کے گھر والوں نے کہا تم عدت کے دن پورے کرو اور تمہارا ایک جیٹھ جیل سے رہا ہوکر آرہا ہے اس سے شادی کرو۔ جس پر وہ لڑکی گھر والوں سے ملنے کا بہانہ کرکے پاکستان آگئی کہ وہ دوبارہ اس گھر نہیں جانا چاہتی۔ لیکن امریکہ واپس جانا چاہتی ہے اور وہاں نوکری کرکے اپنا اور اپنی بیٹی کا مستقبل بنانا چاہتی ہے۔ میں نے کہا تم وہاں اکیلی کیسے رہوگی کیا کروگی یہیں رہو اپنا گھر تو ہے تو اس نے کہا کہ میں یہاں زیادہ غیر محفوظ ہوں کہ میرا باپ میرا دشمن ہے میرے گھر والے اس بات ناراض ہیں کہ ان کے لیئے ان کی فرمائش کے مطابق تحائف نہیں لا سکی ۔ مجھے اس نے کہا کہ میری تم کچھ مدد کرو تو میں نے کہا کہ کوشش کروں گا ۔ میں اپنے ایک پرانے جاننے والے سے ذکر کیا تو اس نے کہا کہ امریکہ میں میرے رشتہ داروں کی پوری فیملی موجود ہے وہ اس کی مدد کریں گے تو میں نے اس لڑکی کو بتایا اور وہ واپس امریکہ چلی گئی ۔ وہاں پہنچی تو کچھ دن تو اس کی آؤ بھگت کی گئی لیکن اس کی مدد کرنے کے حوالے سے کچھ نہ ہوا ۔ اور پھر ایک دن اس فیملی کے ایک مرد نے کہا کہ تم میری دوست بن جاؤ تو میں تمہاری ہر ممکن مدد کروں گا (دوستی سے مطلب ناجائز تعلق تھا) ۔ اور اس مرد کی بہن نے بھی اپنے بھائی کی طرف داری کی اور کہا کہ ایسا تو ہر جگہ ہوتا ہے تم اکیلی لڑکی ہو زندگی گزارنے کے لیئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہے۔ جس اس لڑکی نے فوراً ان کا گھر چھوڑا اور ایک موٹیل میں کمرہ لے کر وہاں شفٹ ہوگئی۔ اسی دوران انٹرنیٹ پر ایک این جی او کا پتا چلا جو وہاں اپنا ایک مددگار سینٹر چلا رہی تھی ۔ اس نے ان سے رابطہ کیا اور این جی او ایک پاکستانی عورت اہلکار نے اس کی مدد کی اور اسے اپنے ذرائع سے وہاں سے نکال کر دوسری ریاست میں موجود مددگار ہوم میں پہنچا دیا ۔ وہاں اسے کہا گیا کہ تمہیں کام دلادیا جائے گا اور سیٹل ہونے میں مدد کی جائے گی۔ اس لڑکی نے بتایا کہ اس این جی او کے زیر اہتمام اکثر کنسرٹس ہوتے تھے جس میں پاکستانی فنکاروں کو بلایا جاتا تھا اور بے گھر لڑکیوں اور بچوں کو دکھلا کر فنڈ اکٹھا کیا جاتا تھا۔ لیکن ان کی مدد کیلیئے کچھ نہیں کیا جاتا تھا۔ بہرحال ان این جی او کی ایک نیک دل عورت نے اس لڑکی کو نرسنگ کا کورس کرنے میں مدد کی اور ایک پاکستانی ڈاکٹر کے کلینک میں اسے نوکری مل گئی ۔ اور وہ واقعی پاکستانی نکلا ۔ اس نے اس کو ایک الگ اسٹوڈیو اپارٹمنٹ لیکر دیا کہ یہ نوکری کی ساتھ میہا کی جانے والی سہولت ہے۔ اور پھر اپنا مطالبہ سامنے رکھ دیا کہ تم مجھ سے دوستی کرو ( مطلب وہی ہے جو میں اوپر بیان کرچکا ہوں ) تو اس لڑکی نے کہا کہ مجھ سے شادی کرلو۔ موصوف نے جواب دیا کہ میں اپنی بیوی اور بچوں سے محبت کرتا ہوں اسلیئے ایسا نہیں کر سکتا۔ جس پر اس لڑکی نے کہا کہ مجھے سوچنے کا وقت دو۔ پھر اس نے مجھے فون کیا اور ساری صورتحال بتائی تو میں نے کہا کہ تم واپس آجاؤ تو اس نے کہا کہ میں واپس بھی نہیں آنا یہیں رہنا ہے ۔ تو میں نے کہا کہ اللہ تمہاری حفاظت کرے جیسے اب تک کی ہے لیکن بعض اوقات کچھ پانے کے لیئے بہت کچھ کھونا پڑتا ہے جو نہ ہو تو اچھا ہے ۔ ہماری دوستی جیسے پہلے تھی آگے بھی ویسے ہی رہے گی اللہ کی مرضی ہوئی تو۔ آگے دیکھیئے کیا ہوتا ہے کیونکہ وہ مجھے ہر ویک اینڈ پر فون کرتی اور ہمشہ ایک نئی بری خبر کے ساتھ ہوتی ہے۔ 

یہ جاری سچ بیتی آپ لوگوں کو سنانے کا مقصد کچھ سوالوں کا جواب پانا ہے ۔ 
کہ ہم لوگ آجکل اپنی خواہشات کی خاطر اپنوں کو بری طرح ٹھکرا دیتے ہیں جس کے نتیجے میں رشتوں میں قائم توازن بری طرح متاثر ہوتا ہے اور اخلاقی بے راہ روی، احساس کم مائیگی اور ٹھرائے جانے کا احساس بڑھ جاتا ہے، جو اولاد کی زندگی کا احاطہ کرلیتا ہے ۔ پھر ایسے ماں باپ اپنی اولاد کی نافرمانی کا رونا روتے ہیں۔ اس میں قصور کس کا ہوا ؟؟؟

ایک با پردہ لڑکی اپنے پردے سے نکل کر باہر آئی تو بجائے اس کی اصلاح کی جاتی ، اسے اخلقی پستیوں کی طرف دھکیل دیا گیا۔۔ یہ کس کا قصور ہے ، معاشرے کا یا فرد واحد کا ؟؟؟؟؟

ملک سے باہر رہنے والے پاکستانی ان ممالک کو لوگوں کی انسانی ہمدردی سے متاثر ہوتے ہیں ۔۔ لیکن کیا ایک بے سہارا لڑکی کی مدد کرنے کے لیئے اس سے ناجائز تعلق ہونا صروری ہے ؟؟؟؟ کہاں گئی انسانیت ؟؟؟

وہ لڑکی پاکستان میں اپنوں سے اتنی خوفزدہ ہے کہ اپنی عزت کو خطرے میں ڈال اکیلی ایک پرائے ملک میں رہ رہی ہے اپنی 4 سال کی بیٹی کے ساتھ (اللہ اس کی عزت جان و مال کی حفاظت فرمائے) اس میں قصور کس کا ہے ۔۔ اس لڑکی کا یا اس کے اپنوں کا ؟؟؟؟؟؟؟

(نوٹ : یہ واقعی ایک جاری آپ بیتی ہے اور ایسی ہی کئی بیت رہی ہیں ہمارے معاشرے میں ہمارے آس پاس اگر آپ کو ایسا کچھ پتا چلتا ہے تو ان کی پردہ پوشی کرتے ہوئے ان کی مدد کرنے کی کوشش کیجیئے) 

Thursday 18 July 2013

ماہ رمضان اور پاکستانیوں کی قوت برداشت

ماہ رمضان افضل ترین مہینہ کہ جس میں اللہ کی بے پایاں رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ وہیں اس مہینہ کےلیئے اللہ تعالٰی نے بہت سے احکامات نازل فرمائے ہیں جن میں ایک حکم ہے برداشت کا ظاہر ہے روزہ رکھنے کا مطلب صرف بھوکا رہنا نہیں ہے 
لیکن میرا ذاتی مشاہدہ و تجربہ یہی ہے کہ ہمارے پیارے ملک پاکستان میں صرف بھوکا رہنے کا نام روزہ ہے باقی احکامات پر عمل کم تعداد میں لوگ کرتے ہیں۔ میں شروع کروں گا اپنی طرف سے کہ میں روزہ نہیں رکھتا کیونکہ میرے پاس اپنے حق میں دینے کے لیئے بہت سی وجوہات ہیں جیسے کہ آفس میں سارا دن جھوٹ بولنا پڑتا ہے، قیلڈ ورک کے لیئے اکثر و بیشتر باہر رہنا پڑتا، نگاہوں کا سنبھلنا بعض اوقات مشکل ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ ( چاہوں تو کوشش کرکے ان سے دور ہو سکتا ہوں لیکن بات قوت برداشت کی ہورہی ہے جو ماہ رمضان میں کمزور پڑ جاتی ہے) ۔ میرا چھوٹا بھائی سحری کرکے سوتا ہے اور عصر کے بعد اٹھتا ہے پوچھو تو کہتا ہے کہ روزہ دار کا سونا بھی عبادت ہے۔ سب سے چھوٹا روزہ رکھ کے ایسا منہ بنائے بیٹھا ہوتا ہے کہ لگتا ہے کہ اگر بات کی تو گولی مار دے گا کہ تمہاری ہمت کیسے ہوئی بات کرنے کی پتا نہیں میرا روزہ ہے۔
اب ذرا بات کرتے ہیں باہر کی میرے آفس میں آدھوں کا روزہ ہوتا ہے آدھوں کا نہیں تو جن کا روزہ ہوتا ہے وہ ایسے اکڑے بیٹھے ہوتے ہیں کہ جیسے روزہ رکھ کر ہم پر یا اللہ پر احسان کر رہے ہیں جب کوئی بات کرو یا پوچھو تو اکثر جواب آتا ہے یار روزہ رکھا ہوا ہے طبیعت ٹھیک نہیں ہے ابھی بات نہ کر، میرا باس پورا سال پوچھتا تک نہیں لیکن رمضان میں روزانہ پوچھے گا کہ ہاں بھئی روزہ رکھیا جے ، نہ میں جواب دو تو ایسے دیکھتا ہے جیسے اچھوت ہوں، گھر واپس جاتے ہوئے قوت برداشت کا عظیم مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے گاڑی پر گاڑی چڑھی ہوئی ہوتی ہے اور مزیدار بات یہ ہے کہ لوگ گاڑیوں سے باہر آکر اس وقت بات کرنا شروع کردیتے ہیں (تلخ الفاظ میں ) اگلے بندے کو غصہ میں کہتے ہیں روزہ زیادہ لگ گیا کیا خود اپنی قوت برداشت پر نظر نہیں ہوتی کہ ظاہر ہے بھئی روزہ رکھاہوا ہے بھوک برداشت کی ہوئی ہے کوئی مزاق نہیں ہے افطار سے کچھ دیر پہلے ٹریفک اتنی تیز ہوتی ہے کہ کسی کو کچھ نظر نہیں آتا اور جا بھڑتے ہیں کسی سے اور پھر شروع ہوتا ہے روزہ پر سیر حاصل لیکچر جس کا اختتام اکثر روڈ پر افطاری کرنے کی صورت میں پوتا ہے۔ بیوپاری حضرات کی برداشت تو غضب کی ہے پورا سال صبر و سکون سے رمضان کا انتظار کرتے ہیں ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں کہ رمضان میں صبر کا پھل کھائیں گے اور کھاتے بھی ہیں۔ باہر کے ممالک میں ماہ رمضان کے لیئے رعایتی بیکج دیئے جاتے ہیں پروموشنز ہوتی ہیں اور یہاں ملک خداداد میں فرعونیت کا راج ہوتا ہے (اوپر کہی گئی باتوں سے کسی کا متفق یا غیر متفق ہونا ضروری نہیں ہے یہ ذاتی مشاہدہ کی بنا پر کی گئی ہیں)

Wednesday 17 July 2013

اردو بلاگنگ میں پہلا قدم

السلام و علیکم 

سب سے پہلے تو میرے محترم دوست اور بڑے بھائی جناب نجیب بھائی کا بہت شکریہ کہ انہوں نے آسان ترین طریقے سے بلاگ بنانے کا طریقہ شیئر کیا اور یوں مجھ جیسا بالکل کورا شخص بھی اردو بلاگر بن گیا گو کہ شروع شروع میں کچھ خامیاں ہوتی ہیں لیکن مجھے اس بات کی ذرا بھی پریشانی نہیں کہ میرے بہت سارے اردو بلاگرز بھائی اور دوست موجود ہیں رہنمائی کےلیئے 
آپ کے تعاون کا خواستگار
Powered by Blogger.

میرے بارے میں