Monday 2 September 2013

معذوری کی شرح میں اضافہ (جسمانی نہیں اخلاقی)

السلام و علیکم 

کافی دن تک مصروف رہا کچھ نجی نوعیت کے کاموں میں تو اس دوران کچھ ایسا دیکھنے یا سننے کو نہیں ملا جو یہاں لکھا جاسکے کیونکہ جو دیکھا اور سنا وہ بلاگز پر کئی بار لکھا جا چکا ہوگا ۔ کل ایک جگہ لاہور کے چند بلاگرز کی گیٹ ٹو گیدر تھی تو وہاں سے واپس آتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک پیروں سے معذور لڑکا تین پہیوں والی موٹر سائیکل پر جا رہا تھا میں نے اس کے پاس گزرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا تو دنگ رہ گیا اور مجھے لگا کہ میں معذور ہوں اور یہ تین پہیوں کی موٹرسائیکل پر جاتا ہوا لڑکا بالکل ٹھیک اور کسی بھی قسم کی معذوری کا شکار نہیں ہے ۔ اتنی طمانیت، اتنی خوشی اور سکون تھا اس کے چہرے پر کہ دیکھو میں بھی اپنی تین پہیوں والی موٹر سائیکل پر جسے تم معذوروں کی موٹر سائیکل کہتے ہو تمہارے ساتھ ایک ہی سڑک پر رواں دواں ہوں ۔ اور میں سڑک کی سائیڈ پر رُک گیا، ہاتھ پاؤں بے جان ہوگئے، ٹھنڈے پسینے آنے لگے، میں نے کانپتے ہاتھوں جیب مین ہاتھ ڈال کر سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور لرزتے ہوئی انگلیوں سے ایک سگریٹ پکڑی اسے سلگا کر وہیں بیٹھ گیا ۔ اور سوچنے لگا کہ معاشرے میں میرے جیسے معذوروں کی تعداد پڑھتی جارہی ہے ۔ یہ جسمانی نہیں اخلاقی اور عملی معذوری ہے ۔ ہماری زبان، دماغ، آنکھیں، کان ہماری مدد کرتے ہیں سیکھنے میں لیکن اخلاقی معذوری ہمیں ہاتھ پاؤں نہیں ہلانے دیتی یہاں تک کہ بطور نام کے مسلمان ہونے کا بھی ثبوت نہیں دے پاتے۔ آفس جاتے ہوئے اکثر میرا دل چاہتا ہے کہ کسی غریب کو 10 روپے ہی دیدوں ۔۔ لیکن دل میں فوراً خیال آتا کہ تجھے آفس سے دیر ہوجائے گی تیری کچھ دینے کی نیت تو تھی نہ ، کسی کو لفٹ دینے کا ارادہ ہو تو خیال آتا ہے کہ موٹر سائیکل کی حالت ٹھیک نہیں ہے لیکن نیت تو تھی نہ ۔ کسی اشارے پر کسی جوان آدمی یا عورت کو دیکھتے ہیں تو جوان کو گھوری ڈال کر جھڑک دیتے ہیں اور عورت کو ہوسناک نظروں سے تولتے ہوئے منہ پر کمینی سی ہمدردی بھری مسکراہٹ سجا کر اسے دس روپے دے دیتے ہیں اگرساتھ میں گھر والے ہوں تو افساوس کا اطہار کرتے ہیں اور اگر دوست ہوں اس کی تعریف کی جاتی ہے اور اگر اکیلے ہوں تو پھر جو چاہے سوچتے ہیں ۔ اخلاقی معذوری کے خلاف ہم کسی ڈاکٹر یا حکیم کے پاس نہیں جاتے اسے اپنے اوپر حاوی ہونے دیتے ہیں۔ آجکل سوشل میڈیا کا دور ہے تو اور آسانی ہوگئی اپنی بے عمل نیکی کی پروموشن کی ۔ جو چاہے کرتے ہوں فوراً اپنے موبائل کے ذریعے فیس بک یا ٹوئٹر پر اسٹیٹس اپ لوڈ کردیا جاتا ہے اور یوں ذمہ داری سے بری ہوجاتے ہیں ۔ اور اخلاقی معذوری تو اتنی خطرناک ہے کہ ہمارے عمل بھی ضائع ہی جاتے ہیں۔ جیسے کہ میں اگر کبھی اپنی سستی اور شیطانیت کے گھیرے سے نکل کر جمعہ کی نماز پڑھ آؤں تو کافی دیر تک اکڑ ہی نہیں جاتی کہ اوئے مجھے کچھ نہ کہنا میں ابھی با جماعت نماز پڑھ کہ آیا ہوں ۔ اور ایسا تو ہمیشہ ہی ہوتا ہے کہ کوئی اچھا کام سرزد ہوجائے تو فوراً کوئی فون کال آجاتی ہے اور میں چھوٹ بول کر پھر اپنی بدی کا پلڑا بھاری کرلیتا ہوں ۔ اکثر میلاد کی محفلوں میں جو خواتین گھروں میں منعقد کرواتی ہیں اس میں اخلاقی معذوری کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہےکہ فلاں عورت کیسے کپرے پہن کر آئی تھی فلاں نے تو کچھ پڑھا ہی نہیں ایویں ای منہ چلاتی رہی ادھر ادھر تاک جھانک کرتی رہی اور کھانا تو ایسے کھایا کہ جیسے مہینوں کی بھوکی ہے وغیرہ وغیرہ وہیں دعا میں ان کا انہماک دیکھنے والا ہوتا ہے کہ جیسے ابھی پھوٹ پھوٹ روئیں گی ۔ میں اپنے دفتر میں خود اٹھ کر کچن مین جاکر اپنے لیئے چائے بناتاہوں یہ دکھانے کے لئے کہ میں اپنے کام خود کرتا ہوں لیکن گھر میں معذوری طاری ہوجاتی ہے کہ میں تو گھر کا واحد کمانے والا ہوں تو یہ گھر والوں کی زمہ داری ہے کہ میری خدمت کریں ۔ میں اپنی ماں کو کہتا ہوں آپ وقت پر کھانا نہیں بناتی ، چھوٹے بھائی کو چائے نہ بنانے پر ڈانٹتا ہوں۔ وہیں کسی محفل میں جانا پو تو وہاں کوشش ہوتی ہے کہ خاص لگوں خاص نظر آؤں اپنے انٹرنیٹ نام "باباجی" کی عملی تفسیر نظر آن کی کوشش کرتا ہوں وہیں اکیلے میں اخلاقیات سے عاری سوچیں مجھے گھیرے رہتی ہیں ۔ اور کل اس لڑکے بظاہر معزور نظر آنے والے جوان کی طمانیت نے مجھے دہلا ڈالا کہ اے بندے تو کس قدر معذور ہے کہ اخلاقی قحط نے تجھے گھیرا ہوا ہے بہت کچھ سکنے کے باوجود تو کچھ نہیں کرتا اور اپنے آس پاس نگاہ ڈالی تو اندازہ ہوا کہ ایسے معذوروں کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے اور ہم خود ایسی معزوری کو بڑھانے کی وجہ بن رہے ہیں ۔ 
علاج یہ سمجھ آیا کہ ہمیں اپنی اس معذوری سے لڑنا ہوگا عمل کی طرف زیادہ اور بھرپور توجہ دینی ہوگی تب کہیں جاکر ہم اخلاقی معذوری کے خاتمے کی شروعات کرسکیں 
اللہ مجھے اور آپ سب کو اپنی اس معذوری سے نجات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے 
ایک دوسرے کو دعاؤں میں یاد رکھا کیجیئے 
آمین 
Powered by Blogger.

میرے بارے میں