Tuesday 30 July 2013

زندہ ملک ، مردہ قوم

السلام و علیکم 

آج کی اس پوسٹ میں کچھ ایسا لکھنے جا رہا ہوں جو مجھے بہھت شدت سے محسوس ہوتا ہے اور اس میں سب سے بڑا گنہگار اور بزدل پہلے تو میں خود کو کہوں گا۔ اسلیئے میں تمام احباب سے جو یہ بلاگ پڑھیں گے ان سے ایڈوانس معذرت کرتا ہوں۔ 

بیسویں صدی کے اوائل میں ایک مرد حق نے مسلمانوں کےلیئے ایک الگ مملکت بنانے کا خواب دیکھا اور جدوجہد شروع ہوئی ، پوتے ہوتے آخر کار 14 اگست ماہ رمضان کا 27واں روزہ 1947 ایک مملکت خداداد وجود میں آئی۔ اور ہندوستان میں رہنے والے مسلمان آزاد ملک کی طرف ہجرت کرگئے۔ کئی اپنا پورا خاندان مرواکر جائیداد لٹواکر یہاں پہنچے۔( ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے، کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے)۔ پھر یہاں کئی طرح کی حکومتیں بنیں جن میں فوجی و جمہوری حکومتیں دونوں شامل تھیں۔ اب غیر مسلم کیسے برداشت کرتے اس نوزائیدہ ملک کو لہٰذا انہوں اپنے مذموم مقاصد بنانے شروع کیئے جن کے تحت شروعات ہی ایسی ہوئی کہ آج تک اس ملک میں کبھی امن نہ ہوسکا ۔ اپنے ہی دشمن تھے اس ملک کے اور آج بھی اپنے ہی دشمن ہیں اس ملک کے۔ کس کس طرح نقصان نہیں پہنچایا گیا اس ملک کو 1971 میں تو دو لخت ہوگیا ،لیکن ٹھیک ہوا کہ جو ملک آج بنگال کہلاتا ہے وہ تھے ہی اسی قابل کے انہیں ناسوروں کی طرح الگ کردیا جائے۔ پھر غیرملکی قوتوں نے جمہوریت کا نعرہ لگایا کہ جو سراسر زہر ہلاہل ثابت ہوا، صورتحال آپ کے سامنے ہے کہ جن اسلامی ممالک میں جمہوریت نافذ کرنے بات ہوتی ہے وہاں کیا حال ہوتا ہے ۔ حالیہ دنوں میں شام اور مصر میں کیا صورتحال ہے آپ کے سامنے ہے۔ لیکن وہاں کی عوام زندہ ہے اپنے حق کے لیئے سڑکوں پر ہے چاہے جمہوریت ہو یا آمریت وہ نکلتے تو ہیں۔ اب بات آتی ہے مملکت خداداد کی قوم کی ۔ سبحان اللہ کیا قوم ہے صدقے جاؤں میں اپنی قوم کے اس قدر مردہ دل قوم کے اس کی ماؤں بیٹیوں کو کوئی بھی لے جائے، اپنے مذموم مقاصد کے لیئے استعمال کرے یہ دیکھتی ہے لیکن ہوئی رہتی ہے۔ حق خود ارادیت پر ڈاکہ ڈال دیا جائے یہ دیکھتی پر سوئی رہتی ہے، کوئی غیر ملکی اپنی گاڑی کے نیچے بندے دیدے، پھر گولیاں مارے وہ پھر بھی آرام سے اپنے ملک چلا جاتا ہے یہ قوم دیکھتی ہے پر سوئی رہتی ہےکہ ان کے وارثان اپنے بچوں کی لاشوں کا سودا امریکی ویزہ اور پیسوں کی عوض کرلیتے ہیں یہ قوم دیکھتی ہے پر سوئی رہتی ہے . اخلاق باختہ چینلز ہمارے ہاں کیبل پر دکھائے جا رہے ہیں عوام دیکھتی رہتی اور سوتی نہیں، مائیں اپنے بچوں سے جان چھڑانے کے لیئے انہیں ہندؤں کے بنائے ہوئے کارٹونز چینلز کے سامنے بٹھا دیتی ہیں اور وہ ہندؤں کی کہانیاں دیکھتے اور رٹتے ہیں پھر ایک دوسرے کو ان ناموں سے پکارتے ہیں خود میرے ماموں کی بیٹی نے اپنا نام کسی ہندو کارٹون کردار کے نام پر رکھا ہوا ہے ۔ پہلے تو انڈین ڈرامے شروع ہوئے پھر پاکستانی ڈراموں میں کھلا پن آنے پھر ایک مسلم ملک ترکی کے درامے دکھائے جانے لگے کہ وہ تو مسلم ملک ہے وہاں کی کھلی ڈلی سیکیولر تہذیب یہاں چل سکتی ہے، عوام جاگتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں سوتے ہوئے بھی یہی دیکھتے ہوئے سوتے ہیں۔ بھائی چارے کو سمجھتے ہیں کہ بھائی کو چارہ نہیں ڈالنا لیکن کتا لاکھوں روپے میں خریدلیتے ہیں پھر اس لاکھوں روپے کے کتے کی خدمت کے لیئے چند ہزار پر ایک ملازم رکھتے ہیں اور پھر کتے کو وقت پر کھانا نہ ڈالنے پر تشدد کرکے مار دیتے ہیں کچھ دن نام نہاد پاکستانی میڈیا کوریج دیتا ہے پھر پتا نہیں کیا ہوا، اعلٰی عدلیہ میں کچھ انتہائی ایماندار لوگ آ بیٹھتے ہیں جو انتہائی غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صرف ایک ہی سیاہ سی پارٹی کے خلاف فیصلہ اور دوسری کو سٹے آرڈر دیدیتے ہیں، پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری تو رکوادیتے ہیں لیکن آجکل جو ہزاروں مالزمین اسٹیل ملز کے بھوکے مر رہے ہیں وہ نظر نہیں آتے کیونکہ انہین پتا ہے قوم دیکھ رہی ہے لیکن سو رہی ہے، از خود نوٹس لے کر خبروں کی زینت بنتے ہیں لیکن فیصلہ کیا ہوا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ عوام دیکھتی ہے لیکن سو رہی ہے، ایک سب سے بڑے جج کا بیٹا ملزم ہے لیکن الزام ثابت ہونے کے باوجود کچھ نہیں ہوا کہ عوام سو رہی ہے، محسن کش عوام جو اپنے سب سے بڑے جمہوری لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی موت کو بھول جاتی ہے جو بیچارہ کہتا تھا کہ میرے مرنے پر ہمالیہ روئے گا آج عوام کو شاید ہی یاد ہو، کچھ لوہار ایک جنرل کی گاڑی کے پیچھے بھاگتے ہیں پھر دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے تیسرے امیر ترین بن جاتے ہیں ، کیسے ؟؟؟؟ عوام دیکھتی ہے پر سو رہی ہے۔ ایک بندہ 8 سال جیل میں رہ کر اور اپنی بیوی کو مرواکر اس ملک کا صدر بن جاتا ہے اور اپنی بیوی کے قتل کا کیس ہی نہیں چلاتا کیوں ؟؟؟؟؟؟ کہ عوام سو رہی ہے، 1997 میں حکومتی جماعت ایک اسکیم نکالتی ہے ملک کو ترقی دینے کے لیئے قرض اتارو ملک سنوارو جس میں کم سے کم 40،000 روپے پاکستانی یا 1 ہزار ان کے غیر ملکی آقاؤں کی کرنسی یعنی ڈالر مانگا جاتا ہے ، اربوں روپے آتے ہیں لیکن نہ تو ملک سنورتا ہے نہ قرض اترتا ہے ، کیوں ؟؟؟؟؟؟؟ کہ عوام سورہی ہے۔ شریعہ بل لانے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے تحت یہاں بادشاہی نظام نافذ ہوتا اور ایک مخصوص خاندان یہاں حکومت کرتا ، کیوں ؟؟؟؟؟؟؟ کہ عوام سو رہی ہے پھر یہاں فوجی حکومت آتی ہے اور حکومتی جماعت کے لیڈر گرفتار ہوجاتے ہیں پھر وہ معاہدہ کر کے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور سر پر نئے بال لگولیتے ہیں انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ عوام سو رہی ہے ۔۔ ملک میں ایک جنرل حکومت کرتا ہے ملک ترقی کرتا ہے معاشی ، اقتصادی اور تکنیکی لوگ سائیکل سے موٹر سائیکل، موٹر سائیکل سے گاڑی، گاڑی سے بڑی گاڑی لے لیتے ہیں ، غریب ترین بندہ بھی موبائل فون رکھتا ہے، انٹرنیٹ گھر گھر میں ہے پھر وہ انتخابات یعنی الیکشن کرواتا ہے خود صدر منتخب ہوتا ہے اس کے دور میں ترقی کی رفتار تیز ہے کئی لوگ لکھ پتی سے کروڑ پتی ہو جاتے ہیں خوشحالی آرہی ہے غیر ملکی کشکول ٹوٹ رہے ہیں ۔ پھر ایک دینی مدرسے کے لوگ اٹھتے ہیں معصوم بچیاں مرقعے میں ملبوس ہیں ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے پکڑادیئے جاتے ہیں کہ شریعت ڈنڈے کے زور پر نافذ کی جائے (شریعت نہ ہوئی مذاق ہو گیا علما کے لیئے ) پھر حکومتی آپریشن ہوتا ہے ۔ یاد رہے اس زمانے میں امام کعبہ شیخ عبدالرحمن السدیس آ ئے ہوئے تھے انہوں نے کچھ نہیں کہا لیکن یہاں اب تک شور ہے کہ بہت سے بے گناہ مارے گئے ، ظاہر ہے بھائی مذہبکے ٹھیکیدار چاہیں تو مدارس میں انٹی ایئر کرافٹ گن بھی لگالیں تو جائز ہے ۔ بہرحال وہ جنرل مدت پوری ہونے پر اپنی وردی بھی اتار دیتا ہے اور صدارت چھوڑ دیتا ہے اور ملک سے باہر چلا جاتا ہے ۔ پھر بھٹو کی بیٹی آتی ہے اس پر پہلا حملہ ہوتا ہے وہ بچ جاتی ہے پھر کچھ عصہ بعد اس پر دوسرا حملہ ہوتا ہے اس کی اپنی ذاتی سیکیورتی بھی اس کو نہیں بچا سکی اور وہ جاں بحق ہوجاتی ہے اور اس کے بعد ملک میں جو لوٹ مار اور تشدد کا بازار گرم ہوتا ہے قتل و غارت گری تین دن تک جاری رہتی ہے کئی بیٹے مارے جاتے ہیں کئی بیٹیاں جو نوکری کرتی تھیں گھروں کو نہ پہنچ سکیں اس پارٹی کے کارکنان اور لیڈران کے گھروں میں ان کے بستروں میں پہنچادی گئیں اس بی بی کے مرنے کی وجہ سے (راقم بہت سے واقعات کا عینی گواہ ہے اور اپنی مدہ دلی اور بزدلی پر تا عمر شرمندہ رہے گا) پھر ہماری سوتی ہوئی عوام مری ہوئی لیڈر کو ووٹ دیتی ہے اور اس کے بعد پانچ سال وہ پارٹی ملک کو لوٹ کر کھاتی ہے اور دوسری پارٹی اپنی باری کے انتظار میں فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرتی ہے کیونکہ عوام سو رہی ہے عدلیہ گونگلوؤں پر مٹی چھاڑتے ہوئے کچھ فیصلے کرتی ہے لیکن ادارے وہ فیصلے ہی جھاڑدیتے ہیں کہ انہیں کسی نے کیا کہنا ہے کیونکہ عوام تو سو رہی ہے ملک بجائے ترقی کرنے کے بدحالی کی طرف رواں ہوجاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ پچھلی حکومت نے کام خراب کیا اور یہ بہانہ بناکر نئی حکومت اور کام خراب کردیتی ہے کہ عوام تو سو رہی ہے اور پھر دوسری پارٹی اپنا ٹرن نزدیک آنے پر حرکت میں آتی ہے صرف ایک ہی شہر میں ترقیاتی کام حیرت انگیز رفتار سے ہوتے ہیں انڈر پاس بنتے ہیں پل بنتے ہیں ، سڑکیں بنتی ہیں اور یوں عوام تھوڑی سی آنکھیں کھول کر دیکھتی ہے ۔ ایک کپتان آتا ہے نئی سوچ کے ساتھ اور اس عوام کو باہر لاتا گھروں سے جو میری طرح کبھی ووٹ نہیں ڈالتی ، پھر انتخابات ہوتے ہیں ، دھاندلی اپنی تاریخ کی انتہا پر ہوتی ہے اور ہمارے نام نہاد الیکشن کمیشن کے قریب المرگ بابے کہتے ہیں کہ انتخابات صاف و شفاف تھے کیوں کہ عوام سو رہی ہے ۔ پھر ایک پارٹی سادی اکثریت لے کر کامیاب ہوجاتی ہے وہی پارٹی جو 1997 میں منتخب ہوئی تھی اور پھر فوجی سے معاہدہ کرکے دلیری سے بھاگ گئی تھی باہر کے ملک اور بہت ترقی کی وہاں ، بہرحال یہ پارٹی اپنی انتخابی مہم میں بہت سے وعدے کرتی ہے کشکول توڑدیں گے، لوڈ شیڈنگ کم یا ختم ہوجائے گی وغیرہ وغیرہ لیکن اقتدار میں اتے ہی وہ دھجیان اڑاتے ہیں کہ سبحان اللہ ایک نیا کشکول بنتا ہے اس میں اربوں ڈالر کا قرضہ پھینکا جاتا ہے اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں آسمان پر چلی جاتی ہیں، پٹرول کی قیمت تو لازمی بڑھتی ہے ڈالر کی قیمت 3 روپے بڑھ جاتی ہے ۔۔۔ بجٹ میں امیروں کو ریلیف ملتا ہے اور غریبوں کو صرف امید کیونکہ اب عوام مر چکی ہے اس میں زندگی یا ضمیر نام کی کوئی سے نہیں باقی ۔۔۔ یہ صرف خود کھانے کے لیئے دوسرے کو بھوکا مرنے دیتے ہیں کہ عوام مر چکی ہے ۔۔ حکومت میں وہ لوگ شامل ہیں جن کا اپنے علاقے میں نام خوف و دہشت کی علامت ہے کہ عوام مر چکی ہے شلوار قمیض کے نیچے سروس کے جوگرز پہننے والے لوگ اسمبلی میں بیٹھے ہیں کہ ملک کی ترقی کے لیئے کچھ کر سکیں کیونکہ انہیں پتا عوام مر چکی ہے ۔ 
اور مردہ عوام کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا ، یہ مردہ بچے پیدا کرتی ہے 
کوئی بھی آکر انہیں بھنبھوڑ سکتا ہے کہ مردے کچھ نہیں کہتے 
جو زندہ ہیں وہ دوسری زندہ قوم کے پاس جا رہے ہیں 
کیونکہ عوام مرچکی ہے  
اورمری ہوئی عوام کے حق کے لیئے کون اٹھے گا 
اگر کوئی اٹھے گا تو اسےبھی مار دیا جائے گا 
کہ عوام کو تنگ نہ کرو یہ مر چکی ہے، اور مرا ہوا بے حس ہوتا، اس میں نہ غیرت ہوتی ہے اور عزت نفس ہوتی ہے 
اس کا دین و ایمان صرف پیسا ہوتا ہے ۔ 
جس کے لیئے یہ ایک دوسرے کا گوشت کھاتے ہیں انہیں کوئی نہییں روکتا کہ عوام مر چکی ہے 
لیکن یہ ملک زندہ ہے اور زندہ رہے گا 
کہ یہ مملکت خداداد ہے اس کا مالک خدا ہے

( یہ سب راقم کی ذاتی سوچ ہے اس سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )

0 comments:

Post a Comment

Powered by Blogger.

میرے بارے میں