Saturday 20 July 2013

جاری المیہ،حیرانی اور پریشانی

السلام و علیکم 

آج ایک ایسی تحریر  لے کر پیش ہوا ہوں جس میں آپ کو بے ربطی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس کے لیئے معذرت خواہ ہوں اور یہ ایک سچائی ہے جو کہ کسی کے ساتھ پیش آرہی ہے میں اس کا نام تو نہیں بتاؤں گا لیکن حالات جیسے تھے اور ہیں ویسے ہی پیش کروں گا کہ میری اس سے اکثر بات ہوتی ہے۔

یہ کہانی ہے ایک ایسی لڑکی کی جو تناؤ بھرے گھریلو ماحول میں پرورش پاتی ہے۔ 4 بہن بھائیوں کے بعد اس کی ماں پیسے اور ملک سے باہر جانے کی خاطر اس کے باپ سے طلاق لے کر اپنی عمر سے چھوٹے اور امریکن نیشنل آدمی سے شادی کرلیتی ہے اور اپنے 4 بچوں کو ان کی نانی کے پاس چھوڑ کر اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ امریکہ سدھار جاتی ہے۔ بچے 8 سال اپنی ماں سے دور اپنی بوڑھی نانی کے پاس پلتے ہیں۔ ماں وہاں دوسرے شوہر سے ایک اور بیٹی کو جنم دیتی ہے اور نوکری کرکے خوب پیسا جمع کرکے لاہور کے ایک پوش علاقے میں ایک کنال کی کوٹھی بنالیتی ہے۔ نانی کے پاس موجود بچوں میں 3 لڑکیاں اور ایک لڑکا ہے۔ جن میں سے ایک لڑکی کی شادی 16 سال کی عمر میں کردی جاتی ہے۔ بھائی بری صحبت میں پڑ کر اپنی تعلیم مکمل نہیں کرپاتا۔ اور ان میں ایک لڑکی کی انٹرنیٹ پر مجھ سے بات ہوتی ہے اور کچھ عرصے میں بہت اچھی دوستی ہوجاتی ہے جو 12 سال  سے قائم ہے۔ اس کی زبانی مجھے حالات کا پتا چلتا رہتا ہے۔ 
پھر ایک دن پتا چلتا ہے کہ ان کی ماں امریکہ سے واپس آگئی ہے ہمیشہ کے لیئے اور اپنے تمام بچوں کو لے کر اپنے بڑے سے گھر میں شفٹ ہوجاتی ہے اور سوتیلا باپ بھی ان کے ساتھ ہی رہتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی ماں بوڑھی ہورہی ہے اور سوتیلے باپ کی جوانی ابھی قائم ہے اس بات کو لے کر ان کے گھر میں جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں۔ باپ اپنی جوان سوتیلی لڑکیوں پر بری نظر رکھتا ہے لیکن ان کی ماں کی وجہ سے ڈرتا بھی ہے۔ ایک دن وہ اپنی ایک سوتیلی بیٹی کے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کوش کرتا ہے تو وہ لڑکی اپنے باپ کو بے نقط سنا دیتی ہے اور اپنی ماں کو بلا لیتی ہے جس کی وجہ سے سوتیلا باپ اس کا شدید دشمن ہوجاتا ہے۔ اور اس کی ماں کے مل کر چھوٹ سچ کہہ کر اپنی بیٹی کو گھر سے نکال دیتا ہے۔ اور وہ جوان لڑکی گھر سے اسطرح نکالے جانے پر پہلے تو حیران ہوتی ہے پھر پریشان ہوتی ہے کہ یہ کیا ہوا اور کیوں ہوا۔ عزت بچانے کی کوشش میں چھت چھن گئی۔ پھر وہ اپنی ایک گہری سہیلی کے گھر چلی جاتی ہے جو کہ اس وقت شدید دباؤ میں زندگی گزار رہی ہوتی ہے کہ اس کے گھر میں پردے کی پابندی ہے لیکن وہ آزاد ہونا اور رہنا چاہتی ہے ۔ اور اپنی سہیلی کے آنے کے بعد جسے گھر سے نکال دیا گیا ہے اس کے آزادی قریب نظر آنے لگتی ہے ۔ اتنے میں اس کا باپ فوت ہوجاتا ہے اور اپنے باپ کے چالیسویں کے بعد وہ اپنا نقاب اتار بھینکتی ہے یہ بہانہ کرکے کہ میں اس گھر کی بڑی لڑکی ہوں مجھے حالات سے لڑنا ہے اپنا اور گھر والوں کا خیال کرنا ہے۔ یہاں وہ ذہنی اور ظاہری تبدیلی کے ساتھ اخلاقی پستی کی طرف سفر شروع کرتی ہے ساتھ میں اس لڑکی کے کندھے کو بندوق رکھنے کے لیئے استعمال کرتی ہے ۔ اس کو پستی کی طرف دھکیلنے میں مرد حضرات اپنا کردار پوری ایمانداری سے ادا کرتے ہیں ۔ ایک دن مجھے اس لڑکی کا فون آتا ہے جسے گھر سے نکال دیا گیا ہے کہ میں اور میری سہیلی کراچی آنا چاہتے ہیں پاسپورٹ بنوانے کے لیئے اور کراچی میں ہمارا کوئی جاننے والا نہیں ہے تو کیا ہم تمہارے گھر آ سکتی ہیں اور تم ہماری مدد کرسکتے ہو پاسپورٹ بنوانے میں تو میں اپنی ماں سے بات کرکے انہیں گرین سگنل دیدیا۔ وہ دونوں صبح کی فلائیٹ سے آتی ہیں میں انہیں ہوائی اڈے سے ریسیو کرکے اپنے دوست کی کار میں اپنے گھر لاتا ہوں اور تھوڑی دیر سستانے کے بعد انہیں لے کر عوامی مرکز لے جاتا ہوں (اس وقت پاسپورٹ آفس عوامی مرکز میں تھا 2004 میں ) وہاں جاکر پتا چلتا ہے کہ اس کی سہیلی نے کسی لڑکے سے بات کی ہوتی ہے پاسپورٹ بنوانے کے لیئے اور وہ لڑکا اسے برطانیہ بھجوانے کا وعدہ کرتا ہے اس شرط پر کہ اس کی سہیلی کی چھوٹی بہن کی شادی اس سے کروائی جائے ۔ مجھے جب یہ سب پتا چلا تو بہت عجیب محسوس ہوا اور کچھ دلچسپ بھی کہ زندگی کا ایک اور تلخ، خود غرضی سے بھرا اور گناہوں کی دلدل کی طرف کشاں کشاں لے جانے والا رخ دیکھنے کو ملے گا ۔ میں اس لڑکی سے جسے گھر سے نکال دیا گیا تھا کہا کہ تم انجانے میں تباہی کی طرف جا رہی ہو اپنی آنکھیں کھولو اور ذرا اپنی اور گھر والوں کی عزت کا خیال کرو جس پر وہ کہتی ہے میں تو غائب دماغی کی سی حالت میں ہوں جس پر میں اپنی امی سے بات کرتا ہوں ۔ پہلے تو امی مجھ پر کافی غصہ کرتی ہیں لیکن پھر مان جاتی ہیں اور اس لڑکی کی ماں سے بات کرتی ہیں۔ اس کی ماں اپنی بیٹی سے دوری پر کافی پریشان اور اسے گھر سے نکالے جانے پر پشیمانی کا اظہار کرتی ہے۔ دوسرے دن وہ دونوں سہیلیاں واپس لاہور روانہ ہوجاتی ہیں اور وہ لڑکی سیدھی اپنی ماں کے پاس چلی جاتی ہے۔جب کہ جو لڑکی اپنا پاسپورٹ بنوانے آتی ہے بعد میں پتا چلتا ہے کہ وہ اخلاقی حدود کو پار کرتے ہوئے کچھ غیر اخلاقی کاموں کے سلسلے میں ملک سے باہر چلی جاتی ہے۔ 
یہاں سے شروع ہوتی ہے گھر نکالی جانے والی لڑکی اب تک کی زندگی کی کہانی جو کہ جاری ہے۔ 
وہ اپنی ماں کے گھر جاکر ایک بار پھر پاہر کے درندوں سے محفوظ ہوجاتی ہے لیکن اسے یہ نہیں پتاہوتا کہ اس کا پاب اب بھی اس کا دشمن ہے۔ وہ اس کی ماں سے کہتا ہے کہ اب اس کی شادی کروادی جائے میرے کچھ جاننے والے ہیں امریکہ میں جنہیں اپنے امریکہ میں پیدا ہوئے پلے بڑھے چھوٹے بیٹے کے لیئے رشتہ چاہیئے ۔ الغرض یہ رشتہ ہوجاتا ہے لڑکی مجھے فون پر بتاتی ہے کہ اس کی شادی ہورہی ہے اور وہ امریکہ جا رہی ہے ۔ اس کا اور رابطہ ختم ہوجاتا ہے کہ وہ امریکہ چلی جاتی ہے اور میں بھی روزی روٹی کمانے میںلگ جاتا ہوں۔ ایک سال بعد مجھے ایک ای میل موصول ہوتی ہے اس لڑکی کی جس میں مسائل ہی مسائل بیان کیئے ہوتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا کسی کی زندگی میں صرف مسائل ہی ہیں ؟؟ ان کا حل نہیں ہے ؟؟ اور ایک لڑکی کے ساتھ ہی کیوں؟؟؟؟ بہرحال اس سے بات ہوتی ہے تو وہ بتاتی ہے کہ جس لڑکے سے اس کی شادی ہوئی ہے وہ بہت سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہے بلکہ وہ پورا خاندان ہی نفسیاتی مسائل کا شکار ہے . اس لڑکے سے اس کی ایک بیٹی تھی ۔ جس کی بابت اس نے بتایا کہ وہ لڑکا ازدواجی تعلقات کے سلسلے میں چند ہی مرتبہ اس کے پاس آیا پھر ایک دم الگ ہوگیا اور پھر کبھی قریب نہیں آیا ۔ اس کی ماں انتہائی ضعیف العقیدہ عورت ہے اور اس کے 2 جیٹھ منشیات کے سلسلے میں جیل میں بند ہیں۔ سسر بھی کچھ نہیں کرتا اور گورنمنٹ کی امداد پر گزارا ہوتا ہے۔ اس دوران پھر کچھ عرصے کے لیئے اس سے رابطہ ختم ہوگیا کہ میں ملک سے باہر چلا گیا تھا نوکری کے سلسلے میں۔ پھر کچھ عرصے بعد میں واپس آگیا۔ ایک دن ایک نئے نمبر سے میرے موبائل ہر کال آئی ، میں ریسیو کی تو پتا چلا وہی لڑکی ہے فون اور آجکل پاکستان میں ہے۔ کچھ دن بعد میرا اس کے گھر جانا ہوا تو اس نے بتایا کہ اس کے باپ نے یہ سب جاننے کے باوجود اس کی شادی اس لڑکے سے کروائی ۔ لڑکے نے اسے طلاق دیدی اور لڑکے کے گھر والوں نے کہا تم عدت کے دن پورے کرو اور تمہارا ایک جیٹھ جیل سے رہا ہوکر آرہا ہے اس سے شادی کرو۔ جس پر وہ لڑکی گھر والوں سے ملنے کا بہانہ کرکے پاکستان آگئی کہ وہ دوبارہ اس گھر نہیں جانا چاہتی۔ لیکن امریکہ واپس جانا چاہتی ہے اور وہاں نوکری کرکے اپنا اور اپنی بیٹی کا مستقبل بنانا چاہتی ہے۔ میں نے کہا تم وہاں اکیلی کیسے رہوگی کیا کروگی یہیں رہو اپنا گھر تو ہے تو اس نے کہا کہ میں یہاں زیادہ غیر محفوظ ہوں کہ میرا باپ میرا دشمن ہے میرے گھر والے اس بات ناراض ہیں کہ ان کے لیئے ان کی فرمائش کے مطابق تحائف نہیں لا سکی ۔ مجھے اس نے کہا کہ میری تم کچھ مدد کرو تو میں نے کہا کہ کوشش کروں گا ۔ میں اپنے ایک پرانے جاننے والے سے ذکر کیا تو اس نے کہا کہ امریکہ میں میرے رشتہ داروں کی پوری فیملی موجود ہے وہ اس کی مدد کریں گے تو میں نے اس لڑکی کو بتایا اور وہ واپس امریکہ چلی گئی ۔ وہاں پہنچی تو کچھ دن تو اس کی آؤ بھگت کی گئی لیکن اس کی مدد کرنے کے حوالے سے کچھ نہ ہوا ۔ اور پھر ایک دن اس فیملی کے ایک مرد نے کہا کہ تم میری دوست بن جاؤ تو میں تمہاری ہر ممکن مدد کروں گا (دوستی سے مطلب ناجائز تعلق تھا) ۔ اور اس مرد کی بہن نے بھی اپنے بھائی کی طرف داری کی اور کہا کہ ایسا تو ہر جگہ ہوتا ہے تم اکیلی لڑکی ہو زندگی گزارنے کے لیئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہے۔ جس اس لڑکی نے فوراً ان کا گھر چھوڑا اور ایک موٹیل میں کمرہ لے کر وہاں شفٹ ہوگئی۔ اسی دوران انٹرنیٹ پر ایک این جی او کا پتا چلا جو وہاں اپنا ایک مددگار سینٹر چلا رہی تھی ۔ اس نے ان سے رابطہ کیا اور این جی او ایک پاکستانی عورت اہلکار نے اس کی مدد کی اور اسے اپنے ذرائع سے وہاں سے نکال کر دوسری ریاست میں موجود مددگار ہوم میں پہنچا دیا ۔ وہاں اسے کہا گیا کہ تمہیں کام دلادیا جائے گا اور سیٹل ہونے میں مدد کی جائے گی۔ اس لڑکی نے بتایا کہ اس این جی او کے زیر اہتمام اکثر کنسرٹس ہوتے تھے جس میں پاکستانی فنکاروں کو بلایا جاتا تھا اور بے گھر لڑکیوں اور بچوں کو دکھلا کر فنڈ اکٹھا کیا جاتا تھا۔ لیکن ان کی مدد کیلیئے کچھ نہیں کیا جاتا تھا۔ بہرحال ان این جی او کی ایک نیک دل عورت نے اس لڑکی کو نرسنگ کا کورس کرنے میں مدد کی اور ایک پاکستانی ڈاکٹر کے کلینک میں اسے نوکری مل گئی ۔ اور وہ واقعی پاکستانی نکلا ۔ اس نے اس کو ایک الگ اسٹوڈیو اپارٹمنٹ لیکر دیا کہ یہ نوکری کی ساتھ میہا کی جانے والی سہولت ہے۔ اور پھر اپنا مطالبہ سامنے رکھ دیا کہ تم مجھ سے دوستی کرو ( مطلب وہی ہے جو میں اوپر بیان کرچکا ہوں ) تو اس لڑکی نے کہا کہ مجھ سے شادی کرلو۔ موصوف نے جواب دیا کہ میں اپنی بیوی اور بچوں سے محبت کرتا ہوں اسلیئے ایسا نہیں کر سکتا۔ جس پر اس لڑکی نے کہا کہ مجھے سوچنے کا وقت دو۔ پھر اس نے مجھے فون کیا اور ساری صورتحال بتائی تو میں نے کہا کہ تم واپس آجاؤ تو اس نے کہا کہ میں واپس بھی نہیں آنا یہیں رہنا ہے ۔ تو میں نے کہا کہ اللہ تمہاری حفاظت کرے جیسے اب تک کی ہے لیکن بعض اوقات کچھ پانے کے لیئے بہت کچھ کھونا پڑتا ہے جو نہ ہو تو اچھا ہے ۔ ہماری دوستی جیسے پہلے تھی آگے بھی ویسے ہی رہے گی اللہ کی مرضی ہوئی تو۔ آگے دیکھیئے کیا ہوتا ہے کیونکہ وہ مجھے ہر ویک اینڈ پر فون کرتی اور ہمشہ ایک نئی بری خبر کے ساتھ ہوتی ہے۔ 

یہ جاری سچ بیتی آپ لوگوں کو سنانے کا مقصد کچھ سوالوں کا جواب پانا ہے ۔ 
کہ ہم لوگ آجکل اپنی خواہشات کی خاطر اپنوں کو بری طرح ٹھکرا دیتے ہیں جس کے نتیجے میں رشتوں میں قائم توازن بری طرح متاثر ہوتا ہے اور اخلاقی بے راہ روی، احساس کم مائیگی اور ٹھرائے جانے کا احساس بڑھ جاتا ہے، جو اولاد کی زندگی کا احاطہ کرلیتا ہے ۔ پھر ایسے ماں باپ اپنی اولاد کی نافرمانی کا رونا روتے ہیں۔ اس میں قصور کس کا ہوا ؟؟؟

ایک با پردہ لڑکی اپنے پردے سے نکل کر باہر آئی تو بجائے اس کی اصلاح کی جاتی ، اسے اخلقی پستیوں کی طرف دھکیل دیا گیا۔۔ یہ کس کا قصور ہے ، معاشرے کا یا فرد واحد کا ؟؟؟؟؟

ملک سے باہر رہنے والے پاکستانی ان ممالک کو لوگوں کی انسانی ہمدردی سے متاثر ہوتے ہیں ۔۔ لیکن کیا ایک بے سہارا لڑکی کی مدد کرنے کے لیئے اس سے ناجائز تعلق ہونا صروری ہے ؟؟؟؟ کہاں گئی انسانیت ؟؟؟

وہ لڑکی پاکستان میں اپنوں سے اتنی خوفزدہ ہے کہ اپنی عزت کو خطرے میں ڈال اکیلی ایک پرائے ملک میں رہ رہی ہے اپنی 4 سال کی بیٹی کے ساتھ (اللہ اس کی عزت جان و مال کی حفاظت فرمائے) اس میں قصور کس کا ہے ۔۔ اس لڑکی کا یا اس کے اپنوں کا ؟؟؟؟؟؟؟

(نوٹ : یہ واقعی ایک جاری آپ بیتی ہے اور ایسی ہی کئی بیت رہی ہیں ہمارے معاشرے میں ہمارے آس پاس اگر آپ کو ایسا کچھ پتا چلتا ہے تو ان کی پردہ پوشی کرتے ہوئے ان کی مدد کرنے کی کوشش کیجیئے) 

5 comments:

Naji said...

کیا بولوں اور کیا کہوں ۔۔۔ عجیب سی کفیت ہے ۔۔۔ باباجی سرکار آپ نے بتا دیا ۔۔۔ دنیا کو پتہ چل گیا ورنہ ہمارے معاشرے میں ایسی بہت سی کہانیاں قبروں میں چلی گئیں

Unknown said...

Bolo thaher jaye ab. Bohaat bhaag ker daikh liya.
thahray huaon ko thaharay huay he miltay hain. abbaad log

Unknown said...

بالکل ٹھیک ہے سر عادل میں اسے یہی کہوں گا اب ٹھہر جاؤ گی تو زندگی میں بھی ٹھہراؤ آجائے گا

Unknown said...

اس لڑکی نے اتنے مشکلات برداشت کر ہی لئے تو اب اسکو خود کفالت کی طرف قدم بڑھانے چاہئے۔

میرے خیال میں پاکستان میں جب تک اسکا سوتیلا باپ ہے ،اس لڑکی کو واپس نہیں آنا چاہئے، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی بندہ اس سے شادی کرئے۔

امریکہ میں رہتے ہوئے اگر وہ مناسب این جی اوز کے ساتھ بات کرئے تو شائد کہیں سے اس کے لئے حل مل جائے۔

Farhat Kayani said...

ایک تلخ حقیقت پر مبنی تحریر۔ عورت چاہے مشرق میں ہو یا مغرب میں اسے ایک کموڈیٹی کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اور جب تک ایسا ہے ، عورت کو ایسے مسائل کا سامنا کرتے رہنا ہو گا۔
مشرقی خواتین کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں کا مرد دنیا کے جس کونے میں بھی ہو گا۔ اکثریت کے لئے قابلِ احترام عورت صرف وہ ہے جس سے ان کا خون کا رشتہ ہے۔ باقی تمام عورتیں کموڈیٹی کی فہرست میں ہی آتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس خاتون کی مشکلیں آسان فرمائیں اور انہیں ہمت دیں کہ وہ خود اپنی زندگی کا کنٹرول ہاتھ میں لے سکیں۔

Post a Comment

Powered by Blogger.

میرے بارے میں